تربوزکو لال کرنے کے لیے انجکشن لگانے کا پروپیگنڈا گزشتہ چند برس سے سننے میں آرہا ہے، تاہم رواں سال اس بحث میں اس وقت شدت آئی جب ایک مقامی ڈاکٹر جو سوشل میڈیا پر کھانے پینے کی مختلف اشیا کے فائدے اور نقصانات کے حوالے سے ویڈیوز بناتے ہیں، نے یہ دعویٰ کیا کہ تربوز کو لال کرنے کے لیے انہیں مخصوص کیمیکل کے ٹیکے لگائے جاتے ہیں جس سے مختلف بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے۔
اہور کی سب سے بڑی فروٹ اور سبزی منڈی میں کئی دہائیوں سے پھلوں کی آڑھت کرنے والے منہاج خان نے بھی تربوز کو ٹیکے لگانے کی کہانی کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ منڈ ی میں روزانہ تربوز کے درجنوں ٹرک آتے ہیں، آج تک کوئی ایسا واقعہ سامنے نہیں آیا کہ کسی نے تربوز کو سرخ کرنے کے لیے انجکشن لگائے گئے ہوں۔
محکمہ زراعت پنجاب (توسیع) کے سابق ڈائریکٹرجنرل اور زرعی ماہر ڈاکٹر انجم علی بٹر نے ایکسپریس کو بتایا کہ مارکیٹ میں اب تربوز سمیت مختلف سبزیوں کے ایسے بیج دستیاب ہیں جن سے 100 فیصد اچھی کوالٹی کی فصل حاصل ہوتی ہے۔ تمام بیج بیرون ملک سے امپورٹ کیے جارہے ہیں ۔ تربوز کی بھی ایسی اقسام ہیں جن کی کاشت سے تربوز لال ہی تیارہوں گے، اس لیے اب کوئی وجہ نہیں بنتی کہ ٹیکے لگا کر تربوز لال کیے جائیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے یہاں چونکہ ملاوٹ کا رحجان عام ہے تو ممکن ہے کسی جگہ کوئی ایسا واقعہ پیش آیا ہو لیکن آفیشل طور پر ابھی تک کوئی ایسا کیس سامنے نہیں آیا کہ کسی فارمر نے تربوز کو لال کرنے کے لیے ٹیکے لگائے ہوں۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ٹیکنیکل ٹیم کے مطابق سوشل میڈیا پر تربوز کو جوٹیکے لگانے کی بات کی جارہی ہے، اس کا نام ایتھروسین ہے جو ایک خاص قسم کافوڈ کلر ہے جو دنیا بھر میں مختلف خوراک کی چیزوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
فوڈ اتھارٹی ماہرین کے مطابق ایتھروسین نامی فوڈ کلر مختلف میٹھی ٹافیوں، جیلی، مشروبات، آئس کریم، آئس بال، کیک، پیسٹری سمیت مختلف بیکنگ اشیا میں رنگ کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان پیور فوڈ رولز 1965ء میں بھی ایروتھریسین کی ایک خاص مقدار کی اجازت دی گئی ہے۔ماہرین نے مزید بتایا کہ تربوز کو جب پنکچرکیا جائے گا تو وہ 3 سے 4 گھنٹوں میں خراب ہ جائے گا جب کہ اس کے اندرانجیکٹ کیا جانے والا محلول بھی باہرنکل آئے گا۔ دوسرا تربوز کے اندر کوئی نسیں نہیں ہوتیں کہ ایک جگہ پرٹیکہ لگے گا اور نسوں کے ذریعے وہ پورے تربو ز کو لال کردے گا۔پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ترجمان نے بتایا کہ جب سے سوشل میڈیا پر یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے، فوڈ اتھارٹی کی ٹیموں نے مختلف اضلاع میں منڈیوں اور بازار میں فروخت ہونے والے تربوز چیک کیے ہیں اور تاحال کہیں سے کوئی ایسا واقعہ رپورٹ نہیں ہوا کہ کسی تربوز کو ٹیکے لگا کرلال کیا گیا تھا۔ماہرین کے مطابق اچھے تربوز کی پہچان یہ بھی ہے کہ پکا ہوا تربوز ایک جگہ پر زرد رنگ کا ہوگا جب کہ پکے تربوز کو تھپکی لگانے سے گونج پیدا ہوگی۔مہر عبدالرحمٰن کا تعلق لاہور سے ہے اور انہوں نے 25 ایکڑ سے زائد رقبے پر تربوز کاشت کیا ہے۔ ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا ان کے باپ دادا کاشتکاری کرتے آرہے ہیں، انہوں نے آج تک نہیں دیکھا کہ تربوز کو لال کرنے کے لیے ٹیکے لگائے گئے ہوں۔ یہ سب پروپیگنڈا ہے تاکہ شہریوں کو گرمیوں میں تربوز جیسا پھل کھانے سے دور رکھا جائے۔ انہوں نے شبہ ظاہر کیا کہ اس پروپیگنڈے کے پیچھے میڈیسن کمپنیوں اور سوشل میڈیا پر جھوٹی کہانیاں بنانے والوں کا ہاتھ ہوسکتاہے۔کئی تصاویر بھارت کی نکلیں جب کہ زیادہ تر تصاویر اور ویڈیوز مختلف وی لاگرز کی بنائی ہوئی ہیں جہاں وہ یہ بتارہے کہ تربوز کو ٹیکے کیسے لگائے جاتے ہیں۔