اسلام آباد / انقرہ: گزشتہ برس ماہِ ستمبر میں پاکستان کے تباہ کن سیلاب کو ایک سال پورا ہونے کے باوجود انسانی مسائل میں کوئی خاص کمی نہیں ہوئی۔ اب بھی لگ بھگ 40 لاکھ بچے صاف پانی، مناسب خوراک اور طبی سہولیات سے محروم ہیں۔
یونیسکوپاکستان کی جانب سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے گزشتہ برس سیلاب کے بعد ہنگامی صورتحال کا نفاذ کیا گیا تھ الیکن اب بھی لاکھوں بچے مدد چاہتے ہیں جو بنیادی سہولیات سےمحروم ہیں۔ جبکہ بحالی کے امور میں بھی وسائل اور رقم کی شدید قلت ہے۔
یونیسیف نے کہا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں جب دوبارہ مون سون بارشیں ہوئیں تو ان سے ملک بھر میں 87 بچے ہلاک ہوئے ہیں۔ اسی طرح 80 لاکھ افراد شدید متاثرہیں جن میں نصف تعداد بچوں کی ہے۔ ان میں 15 لاکھ بچوں کی حالت بہت ہی ناگفتہ بہ ہے جنہیں فوری طور پر مناسب خوران کی ضرورت ہے جو اب بھی متاثرہ ضلعوں میں موجود ہیں۔
قوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے نے 17 کروڑ سے زائد رقم کی فوری درخواست بھی کی ہے جس کے لیے جان بچانے کے عمل کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔
پاکستان میں یونیسیف کے نمائیندے عبداللہ فاضل نے بتایا کہ ’گزشتہ برس سیلاب سے متاثرہ بچوں کے لیے بہت ہولناک گزرا ہے کیونکہ وہ ہرطرح کے خطرات کے شکار ہیں، ان کے پیارے بچھڑ چکے ہیں، ان کے اسکول تباہ ہوگئے ہیں اور گھر بہہ چکے ہیں۔ اب مون سون دوبارہ لوٹ آیا ہے اور موسمی شدت کا بحران سر پر ہے۔ گویا لگتا ہے کہ ان بچوں کے مسائل کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔‘
ستمبر 2022 کے سیلاب میں ایک تہائی ملک پانی میں ڈوب گیا تھا۔ اس سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے جن میں نصف تعداد بچوں کی ہے۔ اس سانحے میں 30 ہزار اسکول، 2000 طبی مراکز اور 4300 آبپاشی کے منصوبے برباد ہوگئے تھے۔ اب بھی ایک تہائی بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔