ڈاکٹر کی غفلت کی وجہ سے مریض کو نقصان پہنچنے پہ ہرجانہ کس طرح لیا جائے؟ اس کیس پہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس چوہدری محمد اقبال صاحب کا بہت ہی اہم فیصلہ:یہ کیس لاہور ہائی کورٹ کے سامنے سول عدالت فیصل آباد کے فیصلے خلاف بطور اپیل آیا۔
کیس کے حقائق:
اپیل کنندہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں سال 2012 میں پانچویں سمسٹر کی طالبہ تھی۔ 11 دسمبر 2012 کو اسے اپنے بازو میں درد محسوس ہوا جس پر وہ چیک اپ کے لیے الائیڈ ہسپتال ،فیصل اباد چلی گئی۔ میڈیکل چیک اپ کے بعد اس کو سرجری تجویز کی گئی اور 17 دسمبر کو اس کا آپریشن کیا گیا۔18 دسمبر کو اس نے شکایت کی کہ اس کے بدن کا نچھلا حصہ کام نہیں کررہا۔ اس کے والد نے اس کو دوسرے ڈاکٹرز کو دکھایا جس سے یہ معلوم ہوا کہ ڈاکٹروں نے انتہائی غفلت سے کام لیا ہے جس کی وجہ سے اس کے تین ریڑھ کی ہڈیاں اورSpinal Cord کٹا ہوا ہے ۔اس غفلت پر اس کے والد نے پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے سامنے شکایت درج کی۔ جس کی تفتیش پر ڈاکٹر کو زمہ دار ٹھہرایا گیا۔ ڈاکٹر نے اس کے خلاف اپیل اور بعد میں رٹ پٹیشن بھی دائر جو کہ دونوں مسترد کر دیے گیے۔ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ نے بھی انکوائری کی اور اس کی پینشن ختم کرنے کا فیصلہ جاری کیا۔اپیل کنندہ/مدعیہ نے 75 کروڑ روپے کے ہرجانہ ادا کرنے کا دعویٰ دائر کیا ، جس پر سول کورٹ نے ہرجانہ کے رقم کو 50 لاکھ تک کرنے کا فیصلہ جاری کیا۔ اس فیصلے کے خلاف دونوں مدعیہ اور مدعا علیہ نے اپیل دائر کی۔
عدالت کے سامنے بنیادی سوال :
عدالت کے سامنے بنیادی سوال یہ تھا کہ کیا مدعیہ واقعی 75 کروڑ روپے بطور ہرجانہ کی حقدار ہے۔؟
یہ چیزیں ثابت کرنے کا بارثبوت مدعیہ پر تھا۔عدالت کے سامنے مدعیہ بذات خود پیش ہوئی۔ جس پر اس نے اپنا بیان پیش کیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر شہزاد انور جو کہ مدعیہ کے چچا نے اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔ اس کے بعد مدعیہ کے ماں کا بیان بھی ریکارڈ کیا گیا ۔مدعا علیہ کی طرف سے مدعا علیہ خود اور ڈاکٹر ارشد علی چیمہ [میڈیکل سپرنٹینڈنٹ الائیڈ ہسپتال] نے اپنے اپنے بیان ریکارڈ کروائے ۔عدالت نے سب سے پہلے پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن ایکٹ 2010 میں ” میڈیکل نیگلیجنس” کے تعارف پر غور کیا ۔ اس کے بعد ایکسپرٹ ڈاکٹرز کے بورڈ کی میڈیکل رپورٹ بھی دیکھی اور ساتھ میں مدعا علیہ/ڈاکٹر’ کے بیان کو بھی دیکھا جس سے یہ ثابت ہوتا کہ اس ڈاکٹر کے پاس یہ آپریشن کرنے کی صلاحیت موجود نہیں تھی اور اس نے آپریشن کے دوران غفلت سے کام لیا ہے ۔
اس کے بعد عدالت آئین میں موجود بنیادی حقوق کے طرف آتی ہے اور ساتھ ایک کیس
2006 SCMR 207
کابھی ذکر کرتی ہے جس میں کہاگیا ہے کہ لاء آف ٹارٹ کے فعالیت آج کے دور کی ضرورت ہے ،تاکہ لوگ سمجھے کہ ایک قوم قانون میں مذکور زمہ داریوں کو پورا کیے بغیر کبھی بھی آگے نہیں جاسکتی،ساتھ میں اس بات پر زور دیا کہ قانون کے اچھے اثرات تب تک نہیں آتے جب تک اس کو سختی سے نافذ العمل نہ کیا جائے۔ ساتھ میں سورۃ البقرہ کا بھی حوالہ دیا۔ اس کے علاوہ طبی غفلت پر متعدد عدالتی نظائر کا بھی زکر کیا۔ جو کہ اہل ہیں:
1996 CLC 1440
1969 AIR SC 128
2000 AIR SC 1888
2019 SCMR 143
2016 SCMR 663
2011 SCMR 1836
عدالت اس بات کی طرف بھی آتی ہے کہ مدعا علیہ کا یہ موقف تھا کہ یہ کیس سرے سے نہیں بنتا کیونکہ جو شکایت اس نے کی تھی چارہ جوئی[ریمیڈی] پہلے سے ہی اس نے لے رکھی ہے، اس پر عدالت نے پنجاب ہیلتھ کیئر کمشن ایکٹ 2010 پر غور کرتی ہے اور کہتی ہے کہ اس کمیشن کو صرف ہیلتھ سروس پرواڈر یعنی ہسپتال وغیرہ کے بد انتظامی اور غفلت اور ان پر الزامات کے تفتیش کے اختیار ہے ہرجانہ طے کرنے کا اختیار اس کمیشن کے پاس نہیں ہے یہ صرف سول کورٹ کے پاس اختیار ہے۔عدالت نے آخر میں یہ کیا کہ میڈیکل بر انتظامی کے کیس کو ” لاء اف ٹارٹ” کے تحت ڈیل کیا جائے ، اور پاکستان اس میں انگلش لاء کی پیروی کرتا ہے ۔
عدالت نے کہا کہ ہرجانہ کی رقم کا تعین کرنے کے لیے عدالت کو اپنے سامنے یہ بنیادی اصول رکھنے ہے۔
1.نقصان کے وجہ سے معقول اور منصفانہ مالی معاوضہ
2.تکلیف اور درد کے وجہ سے مالی معاوضہ
3.سہولتوں کے ختم ہونے کہ وجہ سے نقصان کے تلافی کے لئے معاوضہ
4.طبی اخراجات
5.پیسے کمانے سے محروم ہونے کا نقصان، اس رقم کا اندازہ کرنے کے لیے کم سے کم 2 سال کا وقت پر غور کرنا پڑے گا۔
6.مالی نقصان: سفر کے اخراجات ، سپیشل کیئر کا خرچہ، وغیرہ
7.درد اور تکلیف کے وجہ سے نقصان جیسے کے زلت آمیز رویے ، جسم میں بگاڑ، عمر متوقع میں کمی وغیرہ۔
عدالت کا فیصلہ:
عدالت نے کہا کہ ڈاکٹر کے غفلت کی وجہ سے مدعیہ کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے جس کو پیسوں سے پورا نہیں کیا جاسکتا ،لیکن اس کی وجہ سے کچھ نہ کچھ مدد مل سکتی ہے۔ عدالت نے ٹرائل کورٹ کے 50 لاکھ ہرجانہ کی رقم کو بڑھا کر 1 کروڑ تک کرنے کا فیصلہ جاری کردیا ۔اس کیس کو ریگلولر فرسٹ اپیل نمبر 70634 آف 2023 کے تحت تلاش کیا جاسکتا ہے .