آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید کے ’’کورٹ مارشل‘‘ میں سب کیلئے سبق ہے چاہے وہ سیاستدان ہوں، وقت کے حکمران یا خود مقتدرہ۔ آپ کا اصل امتحان ہی اُس وقت ہوتا ہے جب آپ کے پاس طاقت بھی ہو اور اختیار بھی۔
یہ مقدمہ ہماری سیاسی تاریخ کے اہم ترین مقدمات میں سے ایک ہے کیونکہ برسہا برس سے ہمارے یہاں یہ بحث عام ہے کہ امورِ مملکت میں مقتدرہ کا سیاسی کردار نہیں ہونا چاہئے اور اب تو خود اُن کی طرف سے بار بار یہ واضح اعلان بھی آتا رہا ہے کہ ’سیاستدان اپنے معاملات خود حل کریں بات چیت کے ذریعے‘۔ اگر واقعی سیاست میں ریاست کی مداخلت ختم ہوتی ہے تو یہ ذمہ داری سویلین حکمرانوں اور سیاستدانوں پر ہوگی کہ وہ ملک کو کس ڈگر پر لے کر جاتےہیں۔ مگر کیا آنے والے وقت میں ایسا ہوگا اس پر اب بھی ’سوالیہ نشان‘ ہے۔
جنرل فیض حمید اپنے وقت کے طاقتور ترین افسر تھے جو تسلسل تھے اُس پالیسی کا جو ہمیں سیاست میں مسلسل مداخلت کی نظر آتی ہے جنرل حمید گل سے لے کر آج تک۔ یہ بات بھی تاریخی طور پر درست ہے کہ آئی ایس آئی کا ’سیاسی سیل‘ سابق سویلین وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ء میں ایک خط کے ذریعہ قائم کیا جس کا بنیادی مقصد اُس وقت کی اپوزیشن کی سب سے مؤثر جماعت بائیں بازو کی نیشنل عوامی پارٹی کو دبانا اور اُس حوالے سے خبریں جمع کرنا تھا حالانکہ یہ کام ہمیشہ سے اٹیلی جنس بیورو یا اسپیشل برانچ کا رہا ہے۔
پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کو ’کرش‘ کرنے کی ریاستی پالیسی قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی بنا لی گئی تھی اور یہ بات مجھے ایک بار اسی پالیسی کے اہم کردار سابق بیورو کریٹ مرحوم روئیداد خان نے بتائی تھی کہ کیمونسٹ پارٹی پر پابندی، سُرخ پوش تحریک کے خلاف کریک ڈاؤن، جگتو فرنٹ کی مشرقی پاکستان میں جیت کو قبول نہ کرنا، آزادیٔ صحافت پر پابندی یہ سب اُسی سلسلے کی چند کڑیاں ہیں خود مجھے سابق صوبہ سرحد میں اس پالیسی پر عمل درآمد کیلئے بھیجا گیا تھا۔
جنرل فیض حمید کے خلاف چارج شیٹ میں سب سے اہم الزام سیاست میں مداخلت کا ہے نہ صر ف جب وہ حاضر سروس تھے بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد پانچ سال تک سیاست میں حصہ لینے کی پابندی کی بھی خلاف ورزی کی۔ یہ الزام اِس لئے بھی سب سے اہم ہے کہ اگر اِس پالیسی پر آئندہ سختی سے عمل کیا جائے تو عین ممکن ہے آئندہ چند سال میں سیاستدان اپنے تئیں فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہوں آخر بچے بھی ایک عمر تک اُنگلی پکڑ کر چلتے ہیں۔
اِس کورٹ مارشل کا فیصلہ کب اور کیا آتا ہے اِس کا انتظار شاید طویل نہ ہو اور جب ہم 8؍فروری کے ایک سال مکمل ہونے پر 2025ء میں ’الیکشن میں مداخلت‘ پر تجزیہ کررہے ہوں تو کچھ مثبت تبدیلی نظر آئے۔ نہ جانے کیوں جب اِس ’فیلڈ جنرل کورٹ مارشل‘ کی خبر سُنی تو مجھے ’ڈان لیکس‘ اور سابق سینیٹر حاصل بزنجو مرحوم یاد آئے،جنرل گل کا 1988ء میں اسلامی جمہوری اتحاد بنانا اور پھر اعتراف کرنا اور پھر تاریخی اصغر خان کیس یاد آئے ۔ نہ جانے کیوں مجھے اپنے صحافی ساتھی اور اینکر حامد میر پر حملہ اور اُس کے بعد جو کچھ جیو اور جنگ کے ساتھ ہوا وہ یاد آیا۔
نہ جانے کیوں مجھے نامور اینکر ارشد شریف یاد آیا۔ جسے پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا گیا پھر بیرونِ ملک ہی شہید کر دیا گیا۔ کردار بدلتے رہے مگر سیاست میں مداخلت کے نتائج ہمیں جمہوریت اور آزادیٔ اظہار سے دور کرتے چلے گئے۔ آج بھی صحافت پر سخت پالیسی بنائی جا رہی ہے۔
حالیہ برسوں میں آئی ایس آئی کے زیادہ تر سربراہوں پر مجموعی طور پر الزام رہا کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں چاہے وہ جنرل پاشا ہوں یا جنرل رضوان۔ جنرل نوید مختار ہوں یا جنرل ظہیر الاسلام ۔بس اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کے نتیجے میں کوئی واضح پالیسی بھی ’عدم مداخلت‘ کی سامنے آئے گی یا بس ایک فرد کو سزا ہو گی۔ خیر ابھی تو معاملہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کا ہے مگر 9؍مئی کی تفتیش میں اگر جنرل فیض کے حوالے سے بات آئے گی اور سابق وزیراعظم عمران خان اور جنرل فیض کا کردار سامنے آتاہے تو معاملہ سنجیدہ بھی ہوسکتا ہے۔
اب دیکھنا ہے کہ بات ’سول نافرمانی‘ پر جاتی ہے یا پھر یہ ’سول فرمانی‘ میں بدل جاتی ہے تاہم اب تک 15؍دسمبر کی ڈیڈلائن گزرنے کے باوجود خاموشی ہے۔ کوئی یومِ احتجاج بھی نہیں منایا گیا۔ تاہم ’سانحہ ڈی چوک‘ پر کئی صحافی اور یوٹیوبرز کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی پچھلی حکومت کے دور میں لایا ہوا ’پیکا۔ 2016‘ کا کالا قانون اب اپنی بدترین شکل میں لایا جا رہا ہے۔ غور کریں تو یہ اُسی کا تسلسل ہے جو تحریک انصاف کے دور میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری لاگو کرنے والے تھے اب یہ تاج موجودہ وزیر عطار تارڑ پہننےجا رہے ہیں۔
جس طرح جنرل ظہیر جیو اور جنگ کو ’نشانِ عبرت‘ بنانے کا ارادہ رکھتے تھے حامد میر کے حملے کے بعد اُسی طرح فیض حمید ’ڈان اخبار‘ کے ساتھ ’ڈان لیکس‘ کے بعد کرنا چاہتے تھے۔ تصور کریں کہ پاکستان کے دو بڑے میڈیا ہاؤسز کے ساتھ پچھلے چند سال میں جو ہوا یہی ہماری سیاست کے ساتھ ہوا۔ کبھی نواز شریف کو میڈیا سے ’بلیک لسٹ‘ کیا گیا تو کبھی الطاف حسین کو اور اب عمران خان کو ۔ یہ ایک تسلسل ہے اُسی پالیسی کا جس کا بنیادی نکتہ ہی سیاست میں مداخلت ہے۔ اگر آج ریاست نے یہ فیصلہ کرہی لیا ہے کہ فیض حمید نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ’سیاسی معاملات‘ میں مداخلت کی تو اِس کا نتیجہ آنے کے بعد اُمید لگائی جا سکتی ہےکہ آئندہ ایسا نہ ہو۔ پاکستان کے سیکورٹی معاملات بہت سنگین ہیں۔
دہشت گردی اور انتہا پسندی آج بھی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اِسلئے ضروری ہے کہ ہمارے ادارے سیاست کو سیاستدانوں پر چھوڑ دیں۔ سانحہ آرمی پبلک اسکول کو بھی دس سال گزرگئے اور ساتھ مشرقی پاکستان کو 53سال، کیا کوئی سبق سیکھا؟ آج بلوچستان، خیبر پختونخوا دیکھیں بات بڑے سیاستدانوں سے نکل کر منظور پشتین اور ماہ رنگ بلوچ تک آگئی ہے۔ اِس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ صحافیوں پر مقدمات قائم کرنے، گرفتار کرنے یا ہراساں کرنے اور مزید قوانین سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
فیض حمید اور اُن جیسے بہت سے سابقہ افسران، حکومتوں اور ریاست نے اپنے تئیں کر کے دیکھ لیا جن پر پابندی لگی، زیرِ عتاب آئے وہ صحافی بھی آج موجود ہیں اخبارات بھی اور چینل بھی، جو اُن کو نشانِ عبرت بنانا چاہتے تھےوہ آج ’کورٹ مارشل‘ کا سامنا کر رہے ہیں۔ اور ہم میڈیا والے یہ کہہ رہے ہیں کہ اُن کو اپنے دفاع کا پورا حق ملنا چاہئے ،بس یہی فرق ہے اِن میں اور اُن صحافیوں میں جو کل بھی اور آج بھی جمہوریت اور ایک غیر جانبدار اور آزاد میڈیا کی بات کرتے ہیں جس سے ہر حکمران ناراض اور اپوزیشن خوش نظر آتی ہے مگر کل جب وہ حکومت میں آتے ہیں تو وہی کرتے ہیں جو حکمران ہمیشہ کرتے ہیں یعنی میڈیا پر پابندی۔
آج جنرل فیض کو کورٹ مارشل کے کٹہرے میں کھڑا دیکھ کر مجھے اپنے جامعہ کراچی کے دوست حاصل برنجو کی وہ سینٹ کی تاریخی تقریر اور مجھ سے گفتگو بہت یاد آرہی ہے جب اُسے واضح اکثریت کے باوجود چیئرمین سینٹ نہیں بننے دیا گیا اور محترم صادق سنجرانی فیضاب ہوئے۔ ’’مجھے شکست سینیٹروں کے ہاتھوں نہیں ہوئی بلکہ جنرل فیض کے ہاتھوں ہوئی‘‘۔ اب پتا نہیں جنرل فیض یہ اعتراف کرینگے یا نہیں اور وہ بھی جو اسے ’’ضمیر کے ووٹ‘‘ کہتے تھے۔